لوک سبھا میں آج ’وندے ماترم‘ پر بحث کے دوران کانگریس رکن پارلیمنٹ پرینکا گاندھی نے برسراقتدار طبقہ کو زبردست انداز میں نشانے پر لیا۔ انھوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کا نام تو نہیں لیا، لیکن کئی مواقع پر آج ایوان میں وزیر اعظم کے ذریعہ دیے گئے بیان کی طرف اشارہ کر جوابی حملہ کیا۔ خاص طور سے ’وندے ماترم‘ کے حذف کردہ الفاظ سے متعلق وزیر اعظم مودی نے جو بیان آج دیا، اس پر کانگریس رکن پارلیمنٹ نے کہا کہ ’’ہمارے قومی گیت اور قومی ترانہ دونوں کا انتخاب اور تقرری میں سب سے بڑا کردار گرو دیو رویندرناتھ ٹیگور کا تھا۔ اسے آئین ساز اسمبلی نے بھی منظوری دی۔ اس پر سوال اٹھانا نہ صرف ہماری تحریک آزادی کے پروانوں اور عظیم ہستیوں کی بے عزتی ہے، بلکہ پوری آئین ساز اسمبلی کی بھی بے عزتی ہے۔
پرینکا گاندھی نے اپنی تقریر کے دوران برسراقتدار طبقہ کے سامنے ایک انتہائی تلخ سوال بھی رکھا، جسے بعد میں انھوں نے اپنے ’ایکس‘ ہینڈل پر بھی شیئر کیا ہے۔ انھوں ایوان زیریں میں موجود برسراقتدار طبقہ کے لیڈران سے پوچھا کہ ’’کیا آج حکومت میں بیٹھے لوگ اتنے متکبر ہو گئے ہیں کہ وہ خود کو مہاتما گاندھی، نیتاجی سبھاش چندر بوس، ڈاکٹر امبیڈکر، ڈاکٹر راجندر پرساد جیسی عظیم ہستیوں سے بھی بڑا سمجھنے لگے ہیں؟
اس دوران پرینکا گاندھی نے ’وندے ماترم‘ کی کرونولوجی بھی پیش کی، جو اس طرح ہے:
- 1875 میں بنکم چندر چٹوپادھیائے جی نے اس گیت کے پہلے 2 مصرعے لکھے، جو آج ہمارا قومی گیت ہے۔
- 1882 میں 7 سال بعد بنکم چندر چٹوپادھیائے جی کا آنند مٹھ ناول شائع ہوا اور اس میں یہی گیت شائع کیا اور اس میں 4 مصرعے جوڑے دیے گئے۔
- 1896 میں کانگریس کے اجلاس میں گرودیو رویندرناتھ ٹیگو جی نے یہ گیت گایا۔
- 1905 میں بنگال کی تقسیم کے خلاف تحریک کے وقت ’وندے ماترم‘ عوام کے اتحاد کی اپیل بن کر گلی گلی سے اٹھا اور رویندرناتھ ٹیگور جیسے عظیم مجاہد آزادی اس گیت کو خود گاتے ہوئے بنگال کی سڑکوں پر اترے۔
- طلبا سے لے کر کسان تک، کاروباری سے لے کر وکیلوں تک، ہر کسی نے یہ گیت گایا۔ اس گیت کو سن کر برطانوی حکومت کانپتی تھی۔
- ہمارے ملک کے باشندے اس گیت کو سن کر برطانوی حکومت کے خلاف سچائی اور عدم تشدد کے اخلاقی ہتھیاروں کو لے کر شہید ہونے کی تیاری کرتے تھے۔ یہ گیت مادر وطن کے لیے مر مٹنے کے جذبہ کو بیدار کرتا ہے۔ یہ ہے اس گیت کی طاقت، یہ ہے اس گیت کا ملک سے رشتہ۔
- 1930 کے وقت جب ملک میں فرقہ وارانہ سیاست ابھری، تب یہ گیت تنازعہ کا شکار ہونے لگا۔
- 1937 میں نیتاجی سبھاش چندر بوس، کلکتہ میں ہونے والے کانگریس کے اجلاس کا انعقاد کر رہے تھے۔


















