نئی دہلی : ناری شکتی وندن بل (خواتین ریزرویشن بل) 2023کو آج راجیہ سبھا سے منظوری مل گئی ،ایوان میں موجود تمام 215ممبران نے بل کی حمایت کی،کسی نے مخالفت نہیں کی ۔اب یہ بل صدر جمہوریہ کے دستخط کے بعد قانون کی شکل اختیار کر لیگا کیونکہ لوک سبھا اس بل کو کل ہی اپنی منظوری دے چکا ہے۔لیکن خواتین کو یہ فائدہ حاصل کرنے کے لئے 2029تک انتظار کرنا پڑےگا کیونکہ مردم شماری اور حد بندی کے بعد نیا قانون نافذ ہوگا۔
بی جے پی کے صدر جے پی نڈا اور کانگریس کے سربراہ ملکارجن کھرگے راجیہ سبھا میں یا ناری شکتی وندن ادھنیم(خواتین کے ریزرویشن بل) کے نفاذ پر گرما گرم بحث ہوئی ۔اوبی سی کوٹہ کے علاوہ تنازعہ کا اہم نکتہ بل کے نفاذ کا وقت تھا، جس میں اپوزیشن جماعتوں نے اگلے سال کے عام انتخابات سے قبل قانون سازی کے لیے زور ڈالا۔بحث کے دوران بیشتر اپوزیشن پارٹیوں کے لیڈران نے بل کی حمایت تو کی، لیکن اس کے فوری نفاذ کا مطالبہ کیا۔ ساتھ ہی زور و شور سے یہ مطالبہ بھی رکھا گیا کہ 33 فیصد خواتین کے لیے طے کردہ ریزرویشن کے اندر او بی سی خواتین کے لیے ریزرویشن بھی یقینی بنایا جائے۔ ان معاملوں پر بی جے پی صدر اور رکن پارلیمنٹ جے پی نڈا نے راجیہ سبھا میں اپنا موقف واضح الفاظ میں پیش کیا۔
جے پی نڈا نے راجیہ سبھا میں اپنی بات رکھتے ہوئے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ 2029 سے پہلے خواتین کو ریزرویشن نہیں مل سکتا۔ دراصل انھوں نے اپنے بیان میں کہا کہ ’’خواتین کو کس سیٹ پر ریزرویشن ملنا چاہیے، کس سیٹ پر نہیں ملنا چاہیے، یہ فیصلہ حکومت نہیں کر سکتی۔ یہ فیصلہ کمیشن کرے گا۔ اس سے پہلے ضروری ہے کہ مردم شماری ہو، اور پھر حد بندی کا عمل انجام پائے۔ اس لیے آج بل پاس ہونے کے بعد 2029 میں 33 فیصد خواتین اراکین پارلیمنٹ بن کر آ جائیں گے۔ اور اگر یہ بل آج پاس نہین ہوتا تو یہ طے ہے کہ 2029 میں بھی 33 فیصد خواتین اراکین پارلیمنٹ نہیں بن پائیں گی۔
راجیہ سبھا میں خاتون ریزرویشن بل پر بحث کے دوران بی جے پی کو او بی سی مخالف ٹھہرائے جانے پر نڈا نے کہا کہ ’’ہندوستان کو پہلا او بی سی وزیر اعظم بی جے پی نے دیا ہے۔ آج 27 وزیر او بی سی طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ بی جے پی کے 303 اراکین پارلیمنٹ میں سے 29 فیصد او بی سی ہیں۔ یہ تو صرف لوک سبھا کا نمبر ہے۔
کانگریس رکن پارلیمنٹ رنجیت رنجن نے اس بل کے تعلق سے ایوان بالا میں اپنی رائے ظاہر کرتے ہوئے مرکز کی مودی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں میں خواتین کے لیے ایک تہائی سیٹیں محفوظ کرنے کی سہولت دینے والے اس بل کو رنجیت رنجن نے برسراقتدار طبقہ کا ’انتخابی ایجنڈا‘ اور ’جھنجھنا‘ ٹھہرایا۔ ساتھ ہی انھوں نے مطالبہ کیا کہ اس مجوزہ قانون کو مردم شماری اور حد بندی کے پہلے ہی نافذ کیا جانا چاہیے۔
کانگریس رکن پارلیمنٹ رنجیت رنجن نے مرکز کی مودی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ انھیں اس بل کے پیچھے سازش نظر آتی ہے، کیونکہ حکومت ساڑھے نو سال بعد اسے لے کر آئی ہے۔ لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں میں خواتین کے لیے 33 فیصد سیٹیں محفوظ کرنے کے التزام والے ’آئین (128ویں ترمیم) بل، 2023‘ پر ایوانِ بالا میں بحث کی شروعات کرتے ہوئے رنجیت رنجن نے کہا کہ 2014 کے عام انتخاب کے وقت بی جے پی کے انتخابی منشور میں خاتون ریزرویشن کی بات کی گئی تھی، لیکن اس نے اسے پیش کرنے میں اتنا طویل وقت لگا دیا۔ انھوں نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ آخر اس بل کے لیے پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس کی کیا ضرورت تھی؟