پنجاب کانگریس کے صدر امریندر سنگھ راجہ وڑنگ نے مرکزی حکومت کے اس پیکیج کو ’مذاق‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اتنی بڑی تباہی کے سامنے یہ رقم بالکل ناکافی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ریلیف پیکیج کسانوں اور متاثرین کے دکھ درد کو کم کرنے کے بجائے ان کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ ان کے مطابق پنجاب کی موجودہ صورت حال کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ساڑھے چار لاکھ ایکڑ سے زیادہ رقبے پر کھڑی فصلیں برباد ہوگئیں، ڈھائی لاکھ سے زائد مویشی متاثر ہوئے، ہزاروں مکانات ڈھے گئے اور کئی قیمتی جانیں ضائع ہو گئیں۔
امریندر سنگھ راجہ وڑنگ نے سوال اٹھایا کہ آخر یہ رقم کسانوں تک کب اور کس طرح پہنچے گی؟ اگر کسی کسان کو پچاس ہزار روپے بھی مل گئے تو وہی حقیقی راحت کہلائے گی، ورنہ یہ محض اعلانات کی حد تک محدود رہے گا۔ انہوں نے ماضی کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ 1988 میں پنجاب میں تباہ کن قدرتی آفت کے دوران اُس وقت کی حکومت نے ایک ارب روپے کی امداد فراہم کی تھی جس کی موجودہ قیمت تقریباً ڈھائی ہزار کروڑ بنتی ہے۔
ان کے بقول، اسی طرح سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے 2000 کی دہائی میں بادلوں کی تباہ کاریوں کے بعد 1200 کروڑ روپے کی مدد دی تھی۔ اس تناظر میں موجودہ 1600 کروڑ کی رقم کسی طور بھی خاطر خواہ نہیں ہے۔انہوں نے نہ صرف مرکز بلکہ ریاستی حکومت کو بھی ہدف تنقید بنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت سے تو پہلے ہی کوئی بڑی امید نہیں تھی، لیکن اب مرکز نے بھی مایوس کر دیا ہے۔ ان کے مطابق جن کسانوں کے موٹر پمپ، بجلی کے کنکشن اور مکانات تباہ ہوگئے، وہ محض پچاس ہزار روپے سے اپنے نقصانات پورے نہیں کر سکتے۔ سیلابی پانی سے کئی دیہاتوں میں زندگی مفلوج ہو چکی ہے، لوگ پینے کے صاف پانی کے لیے بازار کا رخ کرنے پر مجبور ہیں اور روزگار ختم ہو گیا ہے۔
پنجاب کانگریس صدر نے زور دے کر کہا کہ ریاست کو کم از کم پچاس ہزار کروڑ روپے کی امداد درکار ہے تاکہ متاثرہ کسانوں اور عام لوگوں کو عملی راحت فراہم کی جا سکے۔ ساتھ ہی انہوں نے کسانوں کے قرضے معاف کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔ انہوں نے انتباہ دیا کہ اگر مرکز نے حقیقی معنوں میں مدد نہیں دی تو پنجاب کی عوام نہ مرکزی حکومت کو معاف کرے گی اور نہ ہی ریاستی حکومت کو۔