مودی حکومت کے لیے یونیفارم سول کوڈ (یو سی سی) کا ملک میں نفاذ آسان ہونے والا نہیں ہے۔ ایسا اس لیے کیونکہ ایک طرف اپوزیشن پارٹیاں اس کے خلاف مضبوطی کے ساتھ آواز اٹھا رہی ہیں، اور دوسری طرف این ڈی اے میں شامل پارٹیوں نے بھی اس کی مخالفت شروع کر دی ہے۔ تمل ناڈو میں بی جے پی کی ساتھی پارٹی اے آئی اے ڈی ایم کے نے بی جے پی کو جھٹکا دیتے ہوئے کہا ہے کہ پارٹی نے حکومت ہند سے یونیفارم سول کوڈ کے لیے آئین میں کوئی ترمیم نہ کرنے کی گزارش کی ہے۔ اے آئی اے ڈی ایم کے کا ماننا ہے کہ یہ قانون ہندوستان کے اقلیتوں کے مذہبی حقوق پر منفی اثر ڈالے گا۔
نیشنل پیپلز پارٹی کے بعد اے آئی اے ڈی ایم کے دوسری اہم بی جے پی حامی پارٹی ہے جس نے یونیفارم سول کوڈ کی مخالفت کی ہے۔ اب دیکھنے والی بات یہ ہوگی کہ مودی حکومت ان کی بات مانتی ہے یا نہیں، یا پھر ان پارٹیوں کو اپنی بات سمجھانے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سے قبل ناگالینڈ میں بی جے پی کی ایک دیگر ساتھی پارٹی نیشنل ڈیموکریٹی پروگریسیو پارٹی یعنی این ڈی پی پی نے یونیفارم سول کورڈ کے نفاذ پر اپنا اعتراض ظاہر کیا تھا۔
واضح رہے کہ یونیفارم سول کوڈ بی جے پی کے ایجنڈے میں طویل مدت سے شامل تھا۔ لاء کمیشن نے 14 جون کو اس تجویز کے بارے میں 30 دنوں کے اندر عوام اور منظور شدہ مذہبی اداروں سے مشورہ مانگ کر یونیفارم سول کوڈ کے نفاذ سے متعلق سرگرمی پھر شروع کر دی۔ یہ بل آنے والے پارلیمانی اجلاس میں پیش ہو سکتا ہے۔ چونکہ بی جے پی نے 2019 کے لوک سبھا انتخاب کے پیش نظر تیار اپنے انتخابی منشور میں یونیفارم سول کوڈ نافذ کرنے کا وعدہ کیا تھا، اس لیے 2024 لوک سبھا انتخاب سے قبل یو سی سی کے نفاذ کو لے کر سرگرمیاں تیز ہو گئی ہیں۔ اس قانون کے نافذ ہونے کے بعد سبھی شہریوں پر ہر طرح کے قانون ان کے مذہب، جنس کی پروا کیے بغیر یکساں طور سے نافذ ہوگا۔ یہ قانون آئین کے آرٹیکل 44 کے تحت آتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اسٹیٹ پورے ہندوستان میں شہریوں کے لیے یکساں شہری قانون یقینی کرنے کی کوشش کرے گا۔