یہ فیصلہ جمعیۃ علما ہند کی طرف سے دائر کردہ ایک درخواست پر آیا، جس میں حکومتوں کی جانب سے غیر قانونی طور پر بلڈوزر کارروائیاں کرنے پر اعتراض ظاہر کیا گیا تھا۔ صدر جمعیۃ علما ہند مولانا ارشد مدنی نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا اور امید ظاہر کی کہ اس فیصلے سے بلڈوزر کارروائیوں پر لگام لگے گی۔
عدالت نے کہا کہ کسی شخص کے گھر کو صرف اس بنیاد پر گرایا نہیں جا سکتا کہ اس پر جرم کا الزام ہے۔ ججوں بی آر گوائی اور کے وی وشوناتھن پر مشتمل بنچ نے اس اہم فیصلے میں کہا کہ ریاستی عملداری میں کسی فرد کا گھر چھیننا قانون کی حکمرانی کے خلاف ہے اور اس طرح کی کارروائی غیر آئینی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے مزید کہا کہ یہ ضروری ہے کہ قانونی عمل اور فرد کے حقوق کا احترام کیا جائے، چاہے وہ کسی جرم میں ملوث ہو یا نہ ہو۔
سپریم کورٹ نے اس فیصلے میں اس بات کو بھی اجاگر کیا کہ کسی شخص کے خلاف الزامات کا فیصلہ صرف عدالت ہی کر سکتی ہے، نہ کہ حکومت یا کوئی اور ادارہ۔ عدالت نے کہا کہ کسی بھی کارروائی میں شہریوں کے حقوق اور قدرتی انصاف کے اصولوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
مولانا ارشد مدنی نے اس فیصلے کو تاریخی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس فیصلے سے نہ صرف مسلمانوں بلکہ تمام شہریوں کو انصاف ملے گا۔ انہوں نے کہا کہ عدالت کا یہ فیصلہ ریاستی سرکاری اداروں کو حدوں میں رکھنے کا کام کرے گا اور شہریوں کے حقوق کا تحفظ ہوگا۔
یہ فیصلہ اس وقت آیا ہے جب متعدد ریاستوں میں بلڈوزر کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے، جن میں مخصوص اقلیتی گروپوں کے مکانات کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ اس بنیاد پر سنایا کہ اس طرح کی کارروائیاں قانون کی حکمرانی اور آئینی حقوق کے خلاف ہیں۔ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ایک بڑی قانونی فتح کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جس سے مستقبل میں حکومتوں کو اپنے اختیارات کا استعمال محتاط انداز میں کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔