نئی دہلی :اتراکھنڈ کے جنگلوں میں لگی آگ پر اب تک پوری طرح قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔ اس معاملے میں سپریم کورٹ میں ایک عرضی داخل کی گئی تھی جس پر بدھ (15 مئی) کے روز عدالت عظمیٰ نے سماعت کی۔ اس دوران سپریم کورٹ نے اتراکھنڈ حکومت کو زوردار پھٹکار لگائی، ساتھ ہی اس کی طرف سے اٹھائے گئے اقدام پر بھی سوال کھڑے کیے۔ عدالت نے کہا کہ یہ انتہائی افسوسناک حالت ہے۔ کام کی جگہ حکومت صرف بہانے بنا رہی ہے۔سپریم کورٹ نے ریاستی حکومت سے پوچھا کہ آپ نے آگ سے نمٹنے کے لیے 10 کروڑ روپے کا منصوبہ تیار کیا اور اس کو منظوری بھی دی، لیکن صرف 3 کروڑ روپے ہی کیوں خرچ کیے۔ ریاست کے جنگلوں میں آگ کے باوجود حکومت نے وہاں مصروف ملازمین کو انتخاب میں کیوں لگایا؟ عدالت نے کہا کہ آپ نے ہمیں جو تصویر دکھائی ہے، حالت اس سے کہیں زیادہ خوفناک دکھائی دے رہی ہے۔ اس پر حکومت کی طرف سے پیش وکیل نے کہا کہ ہم بایو ایندھن کے استعمال کو لازمی بنا رہے ہیں۔
عرضی دہندہ راجیو دتہ نے کہا کہ کماؤ ریجمنٹ بجلی پروڈکشن کے لیے پائن نیڈل کا استعمال کر رہی ہے۔ اس پر سپریم کورٹ نے اتراکھنڈ حکومت سے کہا کہ کماؤں ریجمنٹ سے سبق کیوں نہیں لیتے؟ اتراکھنڈ حکومت نے کہا کہ ہمارے نصف ملازمین الیکشن ڈیوٹی پر ہیں۔ اس پر عدالت نے کہا کہ آپ نے فورسٹ فائر ملازمین کو آگ زنی کے درمیان الیکشن ڈیوٹی پر کیوں لگایا؟ جواب میں ریاستی حکومت نے کہا کہ یہ پہلے مرحلہ میں تھا، اب الیکشن ڈیوٹی ختم ہو چکی ہے کیونکہ چیف سکریٹری نے ہمیں ہدایت دی ہے کہ محکمہ جنگلات کے کسی بھی افسر کو الیکشن ڈیوٹی پر نہ لگایا جائے، ہم اب سے یہ حکم واپس لے رہے ہیں۔
عرضی دہندہ کے وکیل راجیو دتہ نے کہا کہ کچھ لوگ قصداً جنگلوں میں آگ لگا کر درختوں سے نکلنے والا چارکول فروخت کرتے ہیں۔ وہاں یہ کاروبار زوروں پر ہے اور آگ لگانے کے الزام میں پکڑے گئے لوگ تو محض پیادے ہیں۔ اتراکھنڈ حکومت نے اس پر کہا کہ ہم آگ بجھانے میں مصروف ہیں، 9 ہزار سے زیادہ ملازمین اس کام پر لگے ہوئے ہیں۔ جنگل میں آگ لگانے کے معاملے میں 420 مقدمات بھی درج ہوئے ہیں۔ وزیر اعلیٰ ہر دوسرے دن افسران کے ساتھ میٹنگ کر حالات کا جائزہ لے رہے ہیں۔