بارہمولہ: شمالی کشمیر کے ضلع بارہمولہ سے تعلق رکھنے والے 25 سالہ فیضان نادرو وادی کشمیر کے قوت گویائی و سماعت سے محروم پہلے طالب علم ہیں جنہوں نے ایم سی اے کی ڈگری مکمل کرنے کا اعزاز حاصل کیا ہے۔ یہ ابھی ان کے اعلیٰ تعلیمی سفر کا آغاز ہی ہے اب وہ نیشنل ایلی جبلٹی ٹیسٹ (این ای ٹی) کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔یو این آئی کی خبر کے مطابق قوت گویائی و سماعت سے محرومی نےفیضان نادر وکے بڑے خواب دیکھنے کے حوصلے اور جذبے کو پسپا نہیں کیا بلکہ انہوں نے مشکلات کو موقع میں بدل کر کمپیوٹر ایپلی کیشنز میں ماسٹرس ڈگری امتیازی پوزیشن کے ساتھ حاصل کر کے یہ ثابت کر دیا کہ جسمانی معذوری کسی مقصد کو حاصل کرنے میں کبھی بھی حائل راہ نہیں بن سکتی ہے۔ جسمانی طور پرمعذور افراد کے ایک معروف کارکن اور پدم شری ایوارڈ یافتہ جاوید ٹاک کا کہنا ہے کہ فیضان نادرو جموں و کشمیر کے لاکھوں جسمانی طور ررمعذور طلباءکے لئے ایک مثال اور ایک تحریک ہیں۔ انہوں نے کہا: ‘وہ ہم سب کے لئے ایک تحریک ہیں انہوں نے یہ بات ثابت کر دی کہ والدین کے سپورٹ سے جسمانی طور پرمعذور بچے مشکل ترین منزل کو عبور کر کے کامیابی کا جھنڈا گاڑ سکتے ہیں۔
فیضان اور ان کے خاندان کے لئے یہ سفر خار دار اور انتہائی کٹھن رہا تاہم عزم و استقامت اور ہمت و حوصلے نے اس کو آسان بنا دیا۔فیضان کے والد فیاض احمد جو بارہمولہ قصبے میں ایک میڈیکل سٹور چلا تے ہیں، نے بتایا: ‘فیضان ہمارے خاندان کا جسمانی طورپر معذور واحد بچہ ہے ،اس کا چھوٹا بھائی ایم بی بی ایس کی ڈگری کر رہا ہے۔فیضان نے اسکول سے لے کر ایم سی اے کی ڈگری حاصل کرنے تک ہر امتحان میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور پٹیل انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ ٹیکنالوجی راج پور پنجاب سے ایم سی اے کی ڈگری زائد از 90 فیصد نمبرات سے حاصل کی۔ یوں تو ان کی کامیابی میں پورے خاندان کا بڑا رول ہے تاہم ان کی والدہ شمیمہ کا کردار سب سے اہم اور نمایاں ہے۔فیاض احمد نے کہا: ‘میری اہلیہ (شمیمہ) ایک پرائیویٹ اسکول ٹیچر تھیں جب فیضان چار برس کے تھے تو انہوں نے نوکری کو خیر باد کہہ کر زیادہ سے زیادہ وقت ان کے لئے ہی وقف کرنا شروع کردیا۔ انہوں نے کہا: ‘شمیمہ نے اپنے آپ کو فیضان کے لئے ہی وقف کر دیا، وہ ہر وقت فیضان کے ساتھ رہتی ہیں تاکہ فیضان اپنی زندگی کے کسی بھی مقام پر نہ لڑکھڑائے۔
فیضان نادرو نے ابتدائی تعلیم بارہمولہ کے سینٹ جوزف اسکول سے حاصل کی اور بعد ازاں نویں اور دسویں جماعت بارہمولہ ہایئر سکنڈری اسکول سے پاس کئے۔ انہیں ہر سکول میں مشکل سے ہی داخلہ ملتا تھا کیونکہ ہر کسی کا یہ خیال تھا کہ ان کا ایک نارمل اسکول میں تعلیم حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔شمیمہ اپنے بیٹے کے اسکول کے دنوں کو یاد کر تے ہوئے کہتی ہیں: ‘اسکولوں میں تعینات اساتذہ کو یہ معلوم نہیں تھا کہ فیضان جیسے بچوں کو کیسے پڑھایا جائے، ان کو کسی طرح کا کوئی خاص دھیان نہیں دیا جاتا تھا لیکن ہم ان مسائل سے حوصلہ شکن نہیں ہوئے۔فیضان کے والد فیاض احمد نے کہا: ‘چونکہ بارہمولہ میں ایسے طالب علموں کی پڑھائی کے لئے کوئی الگ بند وبست نہیں ہے ،لہذا ہم نے اس کا داخلہ راج پور پٹیالہ پنجاب میں واقع قوت سماعت سے محروم سپیکنگ ہینڈس انسٹی ٹیوٹ میں کرایا۔ انہوں نے کہا: ‘فیضان اس انسٹی ٹیوٹ میں داخلہ لینے والے پہلے کشمیری طالب علم ہیں ۔بعد ازاں انہوں نے گیارہویں اور بارہویں جماعتوں کے امتحانات نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوپن اسکولنگ سے پاس کئے۔ انہوںنے بتایا: ‘فیضان نے لولی پروفیشنل یونیورسٹی جالندھر کے تحت بی سی اے کیا۔فیضان نے تعلیمی سفر کو جاری رکھتے ہوئے مختلف سپورٹس سرگرمیوں میں بھی حصہ لیا۔ انہوں نے انڈین ڈیف کرکٹ ایسو سی ایشن نئی دہلی کی طرف سے آگرہ میں منعقدہ قوت گویائی سے محروم کھلاڑیوں کی قومی ٹی ٹونٹی کرکٹ چمپیئن شپ میں حصہ لیا۔فیضان سے جب ان کے مستقبل کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کی والدہ نے بیٹے کے ترجمان کے بطور کہا: ‘وہ (فیضان) جسمانی طور معذور بچوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں تاکہ ان کو اس طرح کے چلینجوں کا سامنا نہ کرنا پڑے جن کا فیضان کو کرنا پڑا ہے۔انہوں نے کہا: ‘فیضان اپنی زندگی جسمانی طورپر معذور لوگوں کی مدد کے لئے وقف کرنا چاہتا ہے۔