یکم جنوری 1940 کو جے پور کے ایک متوسط سندھی ہندو خاندان میں پیدا ہونے والے گووردھن اسرانی کے والد قالین کے کاروبار سے وابستہ تھے۔ چار بہن بھائیوں میں اسرانی کو تعلیم کے دوران ریاضی سے زیادہ فنون لطیفہ سے دلچسپی تھی۔ سینٹ زیویرز اسکول اور راجستھان کالج، جے پور سے تعلیم حاصل کرنے کے دوران وہ آل انڈیا ریڈیو جے پور میں بطور وائس آرٹسٹ بھی کام کرتے رہے۔
انہوں نے 1960 سے 1962 تک اداکاری کی تربیت حاصل کی اور 1962 میں ممبئی پہنچ گئے۔ وہاں کشور ساہو اور رشی کیش مکھرجی نے انھیں مزید تربیت لینے کا مشورہ دیا۔ چنانچہ 1964 میں اسرانی نے فلم اینڈ ٹیلی ویژن انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا (پونے) میں داخلہ لیا اور 1966 میں کورس مکمل کیا۔
انہیں پہلی بار 1967 کی فلم ’ہری کانچ کی چوڑیاں‘ میں اداکار بسوجیت کے دوست کے کردار میں موقع ملا۔ اسی سال انھوں نے ایک گجراتی فلم میں بطور ہیرو اپنے فلمی سفر کا آغاز کیا۔ 1967 سے 1969 کے دوران انہوں نے چار گجراتی فلموں میں کام کیا، تاہم شہرت کا دروازہ ان پر 1969 میں رشی کیش مکھرجی کی فلم ’ستیہ کام‘ سے کھلا۔
1970 کی دہائی ان کے کیریئر کا سنہری دور ثابت ہوئی۔ وہ رشی کیش مکھرجی، آتما رام اور گلزار جیسے ہدایت کاروں کے پسندیدہ اداکار بن گئے۔ ’میرے اپنے‘، ’کوشش‘، ’باورچی‘، ’پریچے‘، ’ابھیمان‘، ’محبوبہ‘، ’دو لڑکے دونوں کڑکے‘ اور ’بندش‘ جیسی فلموں نے انھیں بالی ووڈ میں مستحکم کیا۔ 1970 سے 1979 کے دوران وہ 101 فلموں میں نظر آئے۔
ان کی مقبولیت کی انتہا 1975 کی فلم ’شعلے‘ سے ہوئی، جس میں انہوں نے انگریزوں کے زمانے کے جیلر کا کردار ادا کیا۔ ان کے مکالمے آج بھی فلمی تاریخ کے یادگار حصے ہیں۔ ان کی کامک ٹائمنگ اور مخصوص اداکاری نے انہیں منفرد مقام عطا کیا۔


















