جوناگڑھ میونسپل کارپوریشن کی جانب سے مسلم کمیونٹی کی درگاہ کو نوٹس بھیجے جانے کے بعد پتھراؤ اور آتش زنی کے واقعات سامنے آئے ہیں۔ اس میں ایک ڈپٹی ایس پی سمیت تقریباً 10 پولیس اہلکار زخمی ہوئے ہیں، جبکہ ایک شخص کی موت ہو گئی ہے۔ پولیس نے اس معاملے میں اب 174 لوگوں کو حراست میں لیا ہے۔ صورت حال سے نمٹنے کے لیے مجے واڑی گیٹ کے آس پاس کے علاقوں میں فورس تعینات کر دی گئی ہے۔
خیال رہے کہ جوناگڑھ ریاست سے وابستہ مجے واڑی گیٹ کے قریب ایک درگاہ ہے، جوکہ عرصہ دراز سے یہاں موجود ہے۔ آزادی کے بعد سے لوگ اسے دیکھ رہے ہیں۔ اس درگاہ کو لے کر پانچ سال قبل بھی تنازعہ ہوا تھا، مگر بات آئی گئی ہو گئی تھی۔ پانچ دن پہلے جوناگڑھ میونسپل کارپوریشن نے اس درگاہ کے کاغذات طلب کئے تھے۔ اس کے بعد میونسپل کارپوریشن نے درگاہ پر نوٹس چسپاں کر دیا۔
نوبھارت ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق جمعہ (16 جون) کی شام 7 بجے درگاہ پر ایک بڑا ہجوم اس اطلاع پر جمع ہوا کہ درگاہ کی قانونی حیثیت پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ جب پولیس ان لوگوں کو ہٹانے پہنچی تو ہجوم مشتعل ہو گیا، مگر پولیس نے صورتحال کو سنبھال لیا اور بھیڑ کو منتشر کر دیا۔
رپورٹ کے مطابق رات 10 بجے کے قریب کچھ لوگ دوبارہ جمع ہوئے اور ہنگامہ آرائی کرنے لگے۔ اس دوران پتھراؤ بھی کیا گیا، جس سے وہاں موجود پولیس اہلکار زخمی ہو گئے۔ کچھ گاڑیوں کو بھی آگ لگا دینے کی اطلاع ہے۔ اس کے بعد پولیس نے طاقت کا استعمال کیا اور آنسو گیس کے گولے چھوڑے۔
پولیس کے مطابق اس دوران ایک شخص کی موت ہو گئی۔ ایک عہدیدار کا کہنا ہے کہ شخص کی موت ممکنہ طور پر پتھربازی کی وجہ سے ہوئی ہے، تاہم موت کی اصل وجہ پوسٹ مارٹ کے بعد ہی سامنے آ سکے گی۔ پولیس نے زخمی پولیس اہلکاروں کو اسپتال بھیج دیا۔ اس کے بعد پتھراؤ کرنے والوں کو گرفتار کیا گیا۔
پولیس نے ابھی تک اس معاملے میں کوئی ایف آئی آر درج نہیں کی ہے لیکن سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو سامنے آیا ہے جس میں درگاہ کے سامنے کھڑے کچھ نوجوانوں کو مارا پیٹا جا رہا ہے۔ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ جوناگڑھ پولیس نے پتھراؤ کرنے والوں کو سبق سکھایا۔