جامع مسجد ٹرسٹ کمیٹی نے مسجد میں داخلے پر پابندی کے معاملے میں بامبے ہائی کورٹ کا رخ کیا ہے۔ مہاراشٹر کے جلگاؤں ضلع میں مسجد سے متعلق تنازعہ پر کلکٹر نے مسجد میں داخلے پر پابندی لگا دی ہے۔ جس شکایت پر کلکٹر نے یہ فیصلہ دیا ہے، اس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ مسجد کا ڈیزائن مندر جیسا ہے۔ اب عدالت اس معاملے کی سماعت 18 جولائی کو کرے گی۔
انگریزی اخبار ’ہندوستان ٹائمز‘ میں شائع خبر کے مطابق ٹرسٹ کے سربراہ الطاف خان نے اپنی درخواست میں کلکٹر کے حکم کو جانبدارانہ اور غیر قانونی قرار دیا ہے۔ درخواست گزار ٹرسٹ کے وکیل ایس ایس قاضی نے کہا کہ 11 جولائی کو کلکٹر نے مسجد میں داخلے پر پابندی کا حکم نامہ پاس کرتے ہوئے ارناڈول میونسپل کونسل کے چیف آفیسر کو مسجد کی چابیاں سونپ دیں۔ ان کے حکم کے مطابق اب صرف دو افراد کو وہاں جا کر نماز پڑھنے کی اجازت ہوگی۔
عرضی کے مطابق ایرناڈول تعلقہ میں پانڈاو سنگھرش سمیتی نے مئی میں کلکٹر کے پاس اس سلسلے میں ایک شکایت درج کرائی تھی، جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ یادگار کا ڈھانچہ ایک مندر سے ملتا جلتا ہے اور اس لیے مسلم کمیونٹی کے تجاوزات کو خالی کیا جانا چاہیے۔ یادگار کے ڈھانچے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کمیٹی کی جانب سے اسے گرانے اور یہاں چل رہے مدرسہ کو بند کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ اس کے بعد کلکٹر کی جانب سے 27 جون کو 14 جون کی سماعت کی تاریخ مقرر کی گئی، لیکن کلکٹر کی مصروفیت کی وجہ سے سماعت نہیں ہو سکی۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ بعد کی تاریخ کو، ٹرسٹ نے کلکٹر سے شکایت کا جائزہ لینے اور اپنا جواب داخل کرنے کے لیے وقت مانگا، لیکن اسے اس کے لیے وقت نہیں دیا گیا ۔11 جولائی کو فیصلہ سناتے ہوئے مسجد میں داخلے پر پابندی لگا دی گئی۔ کلکٹر کے حکم کو متعصبانہ اور غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ٹرسٹ نے کہا کہ اسے اپنا رخ پیش کرنے کا موقع بھی نہیں دیا گیا۔ اس حکم کو چیلنج کرتے ہوئے درخواست گزار نے اسے منسوخ کرنے کی استدعا کی ہے۔
ساتھ ہی ٹرسٹ کا دعویٰ ہے کہ یہ مسجد کئی دہائیوں پرانی ہے اور مہاراشٹر حکومت نے اسے تاریخی یادگار قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسے محفوظ یادگاروں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ ٹرسٹ نے یہ بھی کہا کہ ابھی تک محکمہ آثار قدیمہ یا ریاستی حکومت کی طرف سے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا گیا ہے۔