گزشتہ کچھ دنوں سے پہاڑی علاقوں میں ہو رہی بارش نے تشویشناک حالات پیدا کر دیئے ہیں۔ ہر طرف تباہی کا منظر دیکھنے کو مل رہا ہے، لیکن آنے والے دنوں میں اس سے بھی بڑے خطرہ کا اندیشہ بڑھ گیا ہے۔ یہ خطرہ پہاڑوں کے نیچے سینکڑوں کلومیٹر احاطہ میں بسے میدانی علاقوں کے ان شہروں میں ہے جہاں پر دور دور تک نہ تو ندیاں ہیں اور نہ ہی نالے۔ بارش کی تباہی کا اندازہ لگانے والی ایجنسیوں سے منسلک سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ پہاڑی علاقوں سے بہنے والی ندیوں اور نالوں نے اپنے راستے کو نہ صرف بدلا ہے بلکہ بغیر کسی ریور کیچمنٹ (ندیوں کے آبی ذخیرہ والے علاقے) سے کئی کئی کلومیٹر دور تک کا بہاؤ والا علاقہ بنا لیا ہے۔
خبر کے مطابق اب تک ہماچل پردیش اور اتراکھنڈ کی تقریباً ایک درجن سے زیادہ ندیوں نے اپنا رُخ یعنی راستہ ہی بدل دیا ہے۔ اہم ندیوں کی معاون ندیوں کی تعداد سب سے زیادہ بتائی جا رہی ہے۔ وزیر اعظم دفتر سے لے کر وزارت داخلہ تک کی نظر ہماچل پردیش اور اتراکھنڈ سمیت ملک کے مختلف حصوں میں ہو رہی بارش کی تباہی پر بنی ہوئی ہے۔ مرکزی ایجنسیوں کی طرف سے لگاتار لمحہ لمحہ بدل رہے حالات کے بارے میں وزیر اعظم دفتر اور وزارت داخلہ کو جانکاری بھیجی جا رہی ہے۔
ماہرین موسمیات کا کہنا ہے کہ جس طرح سے بارش ہو رہی ہے اور پہاڑوں پر ندیوں سے تیز رفتار کے ساتھ آنے والے پانی سے سب کچھ تباہ ہوا جا رہا ہے، وہ میدانی علاقوں کے لیے بھی بڑا خطرہ بن کر سامنے آ رہا ہے۔ موسمیاتی سائنسداں سریندر پال کہتے ہیں کہ گزشتہ کچھ دنوں میں ہماچل پردیش اور اتراکھنڈ کے اوپری علاقوں سے آنے والی ندیوں اور نالوں نے اپنے موجودہ راستے کے علاوہ درجنوں نئے چھوٹے چھوٹے راستے اختیار کر لیے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’یہی بنے نئے راستے سب سے بڑے خطرہ کے طور پر سامنے آ رہے ہیں۔ ندیوں میں پانی کی رفتار اتنی زیادہ ہے کہ وہ اپنے ساتھ کئی کلومیٹر تک کی زمین کی ان سبھی ملکیتوں کو بھی تباہ کرتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہیں جو اس کے راستے میں بھی نہیں تھے۔ اب یہی ندی اپنی اسی رفتار کے ساتھ میدانی علاقوں میں آگے بڑھ رہی ہیں۔
ماہرین موسمیات کے مطابق سب سے زیادہ دقت ہماچل پردیش کے نشیبی علاقوں میں بسے پنجاب اور ہریانہ کے تقریباً 12 اضلاع سمیت چنڈی گڑھ میں ہے۔ اتراکھنڈ کے نشیبی علاقوں میں بسے 7 اضلاع سمیت ذیلی علاقوں میں ندیوں کے بہاؤ سے خطرہ پیدا ہو رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اتراکھنڈ اور پنجاب کے علاوہ نارتھ ایسٹ کے ہمالیائی علاقہ میں بھی اسی طرح کے امکانات بن رہے ہیں۔ سریندر پال کا کہنا ہے کہ بارش میں سب سے زیادہ تباہی ان علاقوں میں ہو رہی ہے جہاں کے پہاڑ کھوکھلے ہو چکے ہیں، یا پھر جن پہاڑوں کے کشش ثقل کا مرکزی نکتہ اپنی جگہ سے کھسک گیا ہے۔ اس کے علاوہ جو سب سے زیادہ تباہی مچانے والے حالات بن رہے ہیں، وہ یہی ہے کہ ندیوں اور نالوں کے ذریعہ سے تیز رفتار کے ساتھ آنے والا پانی نہ صرف اپنے راستے کی سبھی عمارتوں کو تباہ کر رہا ہے بلکہ جہاں ندیوں اور نالوں کا راستہ نہیں ہے، وہاں بھی جا کر بنے ہوئے مستقل ٹھکانوں کو تباہ کر رہا ہے۔