پٹنہ:الیکشن کمیشن کے مطابق بہار میں مجموعی طور پر 7.42 کروڑ ووٹرس ہیں۔ یہ تعداد 3 ماہ کی خصوصی گہری نظرثانی یعنی ایس آئی آر کے بعد سامنے آئی ہے۔ ایس آئی آر شروع ہونے سے قبل یعنی 24 جون 2025 تک الیکشن کمیشن کے ہی مطابق بہار میں 7.89 کروڑ ووٹرس تھے۔ اس طرح 3 ماہ کی جدوجہد کے بعد بہار سے تقریباً 47 لاکھ ووٹرس کم ہو گئے ہیں۔
الیکشن کمیشن نے بتایا کہ یکم اگست کو جو ڈرافٹ لسٹ جاری کی گئی تھی، اس میں مجموعی طور پر 65 لاکھ ووٹرس کے نام حذف کیے گئے تھے، لیکن اس کے ایک ماہ بعد 3.66 لاکھ مزید ووٹرس کے نام حذف ہوئے، جبکہ 21.53 لاکھ ووٹرس کے نام جوڑے گئے۔ حالانکہ الیکشن کمیشن نے یہ نہیں بتایا کہ ان میں کتنے نئے ووٹرس (حق رائے دہی کے لیے پہلی بار اہل ہونے والے لوگ) ہیں اور کتنے ایسے ہیں جن کے نام ڈرافٹ لسٹ سے کٹنے کے بعد از سر نو جوڑے گئے ہیں۔
حتمی ووٹر لسٹ جاری ہونے کے بعد بہار کے کئی ایسے اضلاع ہیں جہاں ووٹرس کی تعداد پہلے کے مقابلے بہت کم ہو گئی ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ یہ ایسے اضلاع ہیں جنھیں بنگلہ دیش اور نیپال کی سرحد کے قریب مانا جاتا ہے، اور ان اضلاع میں دراندازوں کو لے کر بہت بحث ہو رہی تھی۔ جن اضلاع میں ووٹرس کم ہوئے ہیں، ان میں مشرقی چمپارن، مغربی چمپارن، سیتامڑھی، مدھوبنی، سپول، کشن گنج اور پورنیہ شامل ہیں۔ ان 7 اضلاع میں کہیں بھی ووٹرس کی تعداد بڑھی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ گوپال گنج، بھاگلپور وغیرہ اضلاع میں بھی ووٹرس کی تعداد میں کمی ہی دیکھنے کو مل رہی ہے۔
ضلع وار حالات پر نظر ڈالیں تو 24 جون 2025 کو جب ایس آئی آر شروع ہوا تو گوپال گنج ضلع میں 20 لاکھ 55 ہزار 845 ووٹرس تھے۔ 30 ستمبر کو جاری فائنل لسٹ کے مطابق گوپال گنج میں اب 18 لاکھ 6 ہزار 465 ووٹرس ہیں۔ یعنی تقریباً 2.5 لاکھ ووٹرس کے نام حذف ہو گئے ہیں۔ اس طرح دیکھیں تو یہاں 12 فیصد سے زائد ووٹرس کم ہوئے ہیں۔
گوپال گنج آر جے ڈی چیف لالو پرساد یادو کا آبائی ضلع ہے، لیکن ان کی پارٹی آر جے ڈی کا بہت زیادہ اثر اس ضلع میں نہیں رہا ہے۔ 1951 سے اب تک یہاں ہوئے 19 انتخابات میں آر جے ڈی صرف ایک بار فتحیاب ہوئی ہے۔ 2024 کے لوک سبھا انتخاب میں یہاں سے جنتا دل یو کامیاب رہی تھی۔ ضلع کی آبادی کا ڈھانچہ بھی انتخابی ایکویشن میں اہم کردار نبھاتا ہے۔ ضلع میں درج فہرست ذات کی آبادی 11.93 فیصد، درج فہرست قبائل 2.05 فیصد اور مسلم ووٹرس تقریباً 22.6 فیصد ہیں۔ ضلع میں بیشتر دیہی ووٹرس 84.7 فیصد ہیں، جبکہ شہری ووٹرس محض 15.3 فیصد ہیں۔
اسی طرح کشن گنج میں پہلے کے مقابلے ایک لاکھ سے زائد ووٹرس کم ہو گئے ہیں۔ یہاں 24 جون 2025 کو مجموعی ووٹرس کی تعداد 12.19 لاکھ تھی، جو اب گھٹ کر 11.12 لاکھ ہو گئی ہے۔ کشن گنج کو سیمانچل کا سیاسی مرکز تصور کیا جاتا ہے۔ ضلع میں مسلم آبادی تقریباً 68 فیصد ہے۔ گزشتہ اسمبلی انتخاب میں یہاں اسدالدین اویسی کی پارٹی (اے آئی ایم آئی ایم) کو اچھی کامیابی ملی تھی، لیکن بعد میں ان کے کئی اراکین اسمبلی پارٹی چھوڑ کر آر جے ڈی میں شامل ہو گئے۔
سارن ضلع کی بات کریں تو پچھلی لسٹ کے مقابلے 2.24 لاکھ ووٹرس کم ہوئے ہیں۔ 24 جون تک اس ضلع میں 31.27 لاکھ ووٹرس تھے، جو 30 ستمبر کو جاری لسٹ میں 29.02 لاکھ رہ گئے۔ سارن میں گزشتہ لوک سبھا انتخاب میں مقابلہ ’یدووَنشیوں‘ اور ’رگھووَنشیوں‘ کے درمیان دیکھنے کو ملا تھا۔ اس سیٹ سے لالو یادو کی بیٹی روہنی آچاریہ آر جے ڈی امیدوار کے طور پر میدان میں تھیں اور ان کا مقابلہ بی جے پی کے راجیو پرتاپ روڑی سے تھا۔ یہاں سے روڑی کامیاب ہوئے تھے۔ ویسے سارن کو ’سمپورن کرانتی‘ کے بانی جئے پرکاش نارائن کا میدانِ عمل بھی مانا جاتا ہے۔ گزشتہ اسمبلی انتخاب میں سارن ضلع کی 6 اسمبلی سیٹوں میں سے 4 پر آر جے ڈی کی جیت ہوئی تھی، جبکہ بی جے پی محض 2 سیٹیں ہی جیت پائی تھی۔