نئی دہلی: سپریم کورٹ نے نومولود بچوں کی چوری اور چائلڈ ٹریفکنگ کے بڑھتے ہوئے واقعات پر سخت موقف اختیار کرتے ہوئے ایک اہم فیصلہ سنایا ہے۔ عدالت نے واضح طور پر کہا ہے کہ اگر کسی اسپتال سے بچہ چوری ہوتا ہے تو متعلقہ ریاستی حکومت کو چاہیے کہ وہ سب سے پہلے اس اسپتال کا لائسنس فوری طور پر منسوخ کرے۔
سپریم کورٹ کی یہ ہدایت ایک ایسے مقدمے میں سامنے آئی ہے جس میں اتر پردیش کے ضلع وارانسی اور اطراف کے اسپتالوں سے نومولود بچوں کی چوری کے کئی کیس سامنے آئے تھے۔ ان مقدمات میں گرفتار ملزمان کو 2024 میں الہ آباد ہائی کورٹ نے ضمانت دے دی تھی، جس کے خلاف متاثرہ خاندانوں نے عدالت عظمیٰ کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا۔
عدالت نے معاملے کی سماعت کے دوران اس کا دائرہ وسیع کر دیا اور قومی انسانی حقوق کمیشن کے ساتھ ساتھ انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ سے بھی رپورٹ طلب کی۔ اب سپریم کورٹ نے جسٹس جے بی پاردی والا کی سربراہی میں ملزمان کی ضمانت کو منسوخ کر دیا ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں واضح کیا کہ یہ کوئی عام معاملہ نہیں بلکہ پورے ملک میں پھیلا ہوا ایک منظم گروہ ہے، جس کے چُرائے گئے بچے مغربی بنگال، جھارکھنڈ اور راجستھان تک سے برآمد ہوئے ہیں۔
عدالت نے کہا کہ ہائی کورٹ کی طرف سے ضمانت دینا عدالتی غیر ذمہ داری کی عکاسی کرتا ہے اور یوپی حکومت کی جانب سے ان ضمانتوں کو چیلنج نہ کرنا بھی افسوسناک ہے۔ عدالت نے ریاستی حکومتوں کو انڈین انسٹی ٹیوٹ کی سفارشات پر عمل کرنے کی ہدایت بھی دی ہے تاکہ اس گھناؤنے کاروبار پر قابو پایا جا سکے۔
سپریم کورٹ نے والدین کو بھی خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اسپتال میں اپنے نومولود بچوں کی حفاظت کو سنجیدگی سے لیں اور کسی بھی مشتبہ حرکت پر فوری کارروائی کریں۔
ایک اور اہم تبصرہ کرتے ہوئے عدالت نے کہا کہ اگر کوئی جوڑا ناپید اولاد ہو تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ کسی اور کا بچہ چوری شدہ جانتے ہوئے خرید لے۔ ایسا کرنا قانونی اور اخلاقی دونوں لحاظ سے ناقابل قبول ہے۔
سپریم کورٹ نے تمام ہائی کورٹس کو ہدایت دی ہے کہ وہ چائلڈ ٹریفکنگ سے متعلق زیر التوا مقدمات کا جائزہ لیں اور ذیلی عدالتوں کو ہدایت دیں کہ وہ ان مقدمات کا فیصلہ چھ ماہ کے اندر کریں۔
عدالت کا ماننا ہے کہ اسپتالوں کی جوابدہی طے کرنا اس غیر انسانی کاروبار کو روکنے کی سمت میں ایک مضبوط قدم ثابت ہوگا، اور اگر حکومتیں وقت پر کارروائی کریں تو اس مکروہ دھندے کا خاتمہ ممکن ہے۔