ممبئی سے متصل کلین ڈومبیولی میونسپل کارپوریشن (کے ڈی ایم سی) کے دائرہ کار میں آنے والی 65 غیر قانونی عمارتوں کو منہدم کرنے کا حکم جاری کر دیا گیا ہے۔ ممبئی ہائی کورٹ کے اس فیصلے سے 3500 خاندان بے گھر ہونے کے خطرے سے دوچار ہو گئے ہیں۔ ان عمارتوں میں تقریباً 6500 افراد رہائش پذیر ہیں، جو اب اپنے گھروں سے محروم ہونے والے ہیں۔
یہ عمارتیں ڈومبیولی ایسٹ اور ویسٹ میں مختلف پلاٹوں پر تعمیر کی گئی تھیں، جن میں 35 پلاٹ درحقیقت عوامی سہولیات جیسے پارک، میدان اور اسپتال کے لیے مختص تھے۔ تاہم، بلڈرز نے غیر قانونی طور پر ان زمینوں پر عمارتیں کھڑی کر دیں اور انہیں فروخت کر دیا۔ الزام ہے کہ اس پورے گھپلے میں کلین ڈومبیولی میونسپل کارپوریشن کے افسران بھی ملوث تھے، جنہوں نے جعلی اجازت نامے اور نقشے تیار کروا کر ان عمارتوں کو قانونی حیثیت دلانے کی کوشش کی۔ بعد ازاں، انہی جعلی دستاویزات کی بنیاد پر ریئل اسٹیٹ ریگولیٹری اتھارٹی (ریرا) سے رجسٹریشن حاصل کر کے خریداروں کو ہوم لون بھی دلوا دیا گیا۔
ایک وہسل بلوور کی طرف سے دائر کی گئی عوامی مفاد کی عرضی کے بعد ممبئی ہائی کورٹ نے رواں ہفتے ان تمام 65 غیر قانونی عمارتوں کو گرانے کا حکم جاری کیا۔ یہ فیصلہ ان خاندانوں کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے جو اپنی زندگی کی ساری جمع پونجی لگا کر ان فلیٹس میں رہائش اختیار کر چکے تھے۔ اب ان کے گھروں پر بلڈوزر چلنے والا ہے اور وہ کسی بھی وقت بے گھر ہو سکتے ہیں۔
جب میڈیا نمائندوں نے ان عمارتوں میں رہنے والے افراد سے بات کی، تو بیشتر افراد شدید اضطراب اور مایوسی کا شکار نظر آئے۔ ان کے ہاتھوں میں فلیٹ کے دستاویزات تو تھے، مگر اب وہ کوئی قانونی حیثیت نہیں رکھتے۔ متاثرہ خاندانوں میں بزرگ، خواتین اور چھوٹے بچے بھی شامل ہیں، جو بے سر و سامانی کی صورتحال سے دوچار ہیں۔
یہ غیر قانونی تعمیرات کا معاملہ سال 2020 میں پہلی بار اس وقت منظر عام پر آیا جب مانپاڑا پولیس اسٹیشن میں پہلی ایف آئی آر درج کی گئی۔ اس معاملے میں 60 افراد پر جعلی دستاویزات کے ذریعے 65 عمارتیں تعمیر کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔ 2022 میں اسی معاملے میں دوسری ایف آئی آر درج کی گئی، اور اس گھپلے کی مزید تحقیقات کے لیے اسپیشل انویسٹی گیشن ٹیم (ایس آئی ٹی) تشکیل دی گئی۔ایس آئی ٹی کی تحقیقات کے بعد کلین پولیس اسٹیشن میں ایک تیسری ایف آئی آر بھی درج کرائی گئی۔ اس اسکینڈل میں میونسپل افسران اور بلڈرز کی ملی بھگت سامنے آئی ہے، جنہوں نے خریداروں کو دھوکہ دے کر غیر قانونی فلیٹس فروخت کیے۔