اٹھارہویں لوک سبھا کا سرمائی اجلاس 20 دسمبر کو ختم ہو گیا۔ یہ اجلاس 25 نومبر سے شروع ہوا تھا اور پورے سیشن میں مجموعی طور پر 20 اجلاس لوک سبھا میں اور 19 اجلاس راجیہ سبھا میں ہوئے۔ دونوں ایوانوں (لوک سبھا اور راجیہ سبھا) میں تقریباً 105 گھنٹے کی کارروائی چلی۔
دونوں ایوانوں میں ہوئے کام کا جائزہ لیا جائے تو اس سرمائی اجلاس کے دوران لوک سبھا کی پروڈکٹیویٹی 54 فیصد اور راجیہ سبھا کی پروڈکٹیویٹی 41 فیصد رہی۔ پارلیمنٹ میں مجموعی طور پر 4 بل پیش کیے گئے، حالانکہ کوئی بل ایسا نہیں تھا جو دونوں ایوانوں سے پاس ہوا ہو۔ سب سے مشہور ’وَن نیشن، وَن الیکشن‘ بل رہا جسے جے پی سی (جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی) میں بھیجا گیا ہے۔ حکومت کی طرف سے 16/17 بل لسٹیڈ تھے، لیکن 5 بل ہی لوک سبھا میں رکھے گئے، جن میں سے 4 پاس ہوئے۔
لوک سبھا میں 15 گھنٹے 43 منٹ آئین پر بحث کی گئی۔ اس میں 62 اراکین پارلیمنٹ نے حصہ لیا۔ راجیہ سبھا میں آئین پر بحث 17 گھنٹے سے زیادہ ہوئی جس میں 80 اراکین پارلیمنٹ نے حصہ لیا۔ جے پی سی میں اراکین کی تعداد کو لے کر بھی کچھ تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ مرکزی وزیر کرن رجیجو نے بتایا کہ جے پی سی میں پہلے 31 اراکین رکھنے پر غور ہوا تھا۔ بعد میں کئی پارٹیوں کے مطالبہ پر اسپیکر نے اس کے سائز کو بڑھایا ہے۔ جے پی سی میں اب 39 اراکین ہوں گے۔ بعد میں این ڈی اے کے 4 اور انڈیا بلاک کے 4 اراکین کو جے پی سی میں شامل کیا گیا۔
اس مرتبہ پارلیمانی اجلاس کی شروعات اڈانی معاملے پر ہنگامہ کے ساتھ ہوئی تھی۔ اس دوران منی پور اور کسانوں کے اییشوز بھی اٹھائے گئے۔ آئین پر بحث کے دوران شروع ہوا تنازعہ اب تک ختم نہیں ہوا ہے۔ 19 دسمبر کو تو بات دھکا مُکی تک پہنچ گئی۔ ظاہر ہے، دونوں ایوانوں میں ہنگامہ زیادہ ہوا اور کام کم ہو سکا۔ کرن رجیجو نے کہا کہ اس اجلاس میں کام کم ہوا ہے جس سے ہم خوش نہیں ہیں۔ رکن پارلیمنٹ سوال پوچھنے کے لیے اپنی پرچی ڈالتا ہے، پوری منسٹری اس کا جواب دینے کے لیے تیاری کرتی ہے، لیکن جب ہنگامہ ہوتا ہے تو سوال ہی نہیں ہو پاتا ہے۔ پارلیمنٹ نہ چلنے سے سب سے زیادہ نقصان ملک کو ہے۔