توانائی کے شعبہ میں ہو رہے بے تحاشہ نقصان کے پیش نظر اتر پردیش حکومت نے بڑا فیصلہ لیا ہے۔ بجلی فراہمی کا نظام اب نجی شعبہ یعنی پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کیا جائے گا۔ پی پی پی (پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ) ماڈل کے تحت شروع میں ریاست کے پوروانچل علاقوں کو نجی شعبے کے حوالے کیا جائے گا، کیونکہ محکمہ توانائی کو سب سے زیادہ خسارہ پوروانچل اور دکشنانچل ڈسکام (بجلی کی تقسیم والے کارپوریشنز) علاقوں سے ہو رہا ہے۔ پیر کو پاور کارپوریشن کے چیئرمین ڈاکٹر آشیش کمار گوئل نے شکتی بھون ہیڈکوارٹر میں ایک میٹنگ کی جس میں ڈسکما کے مینجنگ ڈائریکٹرز اور چیف انجینئرس نے بھی حصہ لیا۔ ڈاکٹر آشیش کمار نے تمام اعلیٰ عہدیداران سے توانائی کے شعبہ میں ہو رہے نقصانات کو کیسے کم کیا جائے، اس بارے میں تجاویز مانگیں۔ میٹنگ میں موجود زیادہ تر شرکاء نے اڈیشہ میں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت ٹاٹا پاور کی جانب سے کی جانے والی بجلی کی فراہمی کے ماڈل کا مطالعہ کرنے اور اسے اپنانے کا مشورہ دیا۔
آر ڈی ایس ایس (ریوائزڈ ڈسٹری بیوشن سیکٹر اسکیم) کے حوالے سے بلائی گئی میٹنگ میں چیئرمین نے ڈسٹری بیوشن کارپوریشنز کی خراب مالی حالت کا ذکر کیا۔ ساتھ ہی کہا کہ تمام تر کوششوں کے باوجود کارپوریشنز کا نقصان بڑھتا جا رہا ہے۔ بجلی خریداری میں جتنے رقم صرف کیے جا رہے ہیں اتنے بھی واپس نہیں آ پا رہے ہیں۔ چیئرمین نے آگے بتایا کہ ریاست کے لوگوں کو بجلی فراہمی کے لیے موجودہ مالی سال میں ہی کارپوریشنز کو حکومت سے 46130 کروڑ روپے کی امداد کی ضرورت پڑی ہے۔ اگر یہی حالت برقرار رہی تو اگلے سال 50-55 ہزار کروڑ روپے اور پھر 60-65 ہزار کروڑ روپے کی ضرورت ہوگی
میٹنگ میں کہا گیا کہ جس پی پی پی ماڈل کو اپنانے کی بات ہو رہی ہے، اس میں نجی کمپنی کے مینجنگ ڈائریکٹر اور چیئرمین حکومت سے ہوں گے۔ عہدے کی تقسیم کے حوالے سے یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اگر پی پی پی ماڈل میں چیئرمین حکومت کا ہوگا تو اس کی موجودگی سے بجلی صارفین کے ساتھ ساتھ کارپوریشن کے افسران اور ملازمین کے مفادات کو بھی یقینی بنایا جا سکے گا۔ ساتھ ہی میٹنگ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کانٹریکٹ ملازمین کے مفادات کا بھی خیال رکھا جائےگا