وارانسی: گیانواپی مسجد میں ہوئے تین مہینے تک کے محکمہ آثار قدیمہ (اے ایس آئی) کی سروے کی رپورٹ ہندو اور مسلم فریق کو سونپ دی گئی ہے۔ یہ رپورٹ ملتے ہی ہندو فریق یہ دعویٰ کرنے لگا ہے کہ مسجد مندر کو توڑ کر بنائی گئی تھی، جسے مسلم فریق نے صاف طور سے خارج کر دیا ہے۔ مسلم فریق کے وکیل اخلاق احمد کے مطابق مسجد کسی مندر کو توڑ کر نہیں بنائی گئی ہے اور وہ سروے رپورٹ کا اچھی طرح سے مطالعہ کرنے کے بعد عدالت میں اس پر اعتراض داخل کر سکتے ہیں۔مسلم فریق کی جانب سے 839 صفحات کی یہ رپورٹ انجمن انتظامیہ مساجد کمیٹی کے وکیل اخلاق احمد نے حاصل کی۔ انہوں نے کہا کہ ہندو فریق جو دعویٰ کر رہا ہے وہ سراسر غلط ہے کیونکہ ایسی کوئی بات سروے رپورٹ میں نہیں کہی گئی ہے۔ اس رپورٹ میں وہی سب باتیں ہیں جو پہلے ایڈوکیٹ کمیشن کی کارروائی میں آ چکی ہیں۔ گزشتہ کمیشن کے جائزے میں جو چیزیں سامنے آئی تھیں وہی چیزیں اس رپورٹ میں بھی سامنے آئی ہیں، بس فرق صرف اتنا ہے کہ اے ایس آئی کی رپورٹ میں ان چیزوں کا ذکر پیمائش کے ساتھ کیا گیا ہے۔
مسلم فریق کے وکیل اخلاق احمد کا کہنا ہے کہ ’’ہندو فریق کوئی ایکسپرٹ نہیں ہے جو کسی عمارت کو دیکھ کر بتا سکے کہ پتھر کتنا پرانا ہے اور اس میں استعمال ہونے والے ساز و سامان پہلے کہاں استعمال ہو چکے ہیں۔ یہ باتیں تو اے ایس آئی کی رپورٹ میں بھی نہیں ہے۔‘‘ رپورٹ کی تصویروں میں ہندو دیوی دیوتاؤں کے ذکر اخلاق احمد نے کہا کہ ’’جن مورتیوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ سرٹیفائیڈ نہیں ہیں۔