سپریم کورٹ نے جمعرات کو اپنے ایک اہم فیصلے میں لوک پال کے اس حکم پر روک لگا دی ہے جس میں اس نے خود کو ہائی کورٹ کے موجودہ ججوں کی جانچ کے لیے بااختیار بتایا تھا۔ سپریم کورٹ نے اس حکم کو بے حد پریشان کرنے والا قرار دیتے ہوئے مرکزی حکومت اور لوک پال کے رجسٹرار کو نوٹس جاری کرکے جواب طلب کیا ہے۔
دراصل لوک پال نے 27 جنوری کو ایک حکم جاری کرکے ہائی کورٹ کے موجودہ ایڈیشنل ججز کے خلاف دو شکایتوں پر کارروائی کی بات کہی تھی۔ ان شکایتوں میں الزام تھا کہ متعلقہ جج نے ایک نجی کمپنی کے حق میں فیصلہ دینے کے لیے ریاست کے ایک ایڈیشنل ضلع جج اور ہائی کورٹ کے ایک دیگر جج کو متاثر کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس کمپنی کے حق میں فیصلے کو متاثر کرنے کا الزام ہے، وہ اسی جج کی موکل رہ چکی تھی، جب وہ وکالت کرتے تھے۔
جسٹس بی آر گوئی کی صدارت والی بنچ نے اس حکم کا ازخود نوٹس لیا۔ عدالت نے لوک پال کے اس قدم کو عدلیہ کی آزادی کے لیے چیلنج مانتے ہوئے فوری طور پر معاملے میں دخل دیا۔ بنچ میں شامل جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس ابھے ایس اوکا نے شکایت کنندہ کو جج کا نام ظاہر کرنے سے روک دیا اور یہ بھی ہدایت دی کہ اس معاملے سے جڑی شکایت کو پوری طرح سے خفیہ رکھا جائے۔
غور طلب ہے کہ لوک پال اور لوک آیکت قانون 2013 کے تحت بدعنوانی کے معاملوں میں جانچ کا اختیار لوک پال کو دیا گیا ہے، لیکن کیا وہ موجودہ ججوں کی جانچ کر سکتا ہے؟ یہی سوال اب قانونی گلیارے میں موضوع بحث ہے۔