عدالت عظمیٰ نے جمعرات کو آوارہ کتوں سے متعلق سالیسٹر جنرل تشار مہتا کے اس مطالبہ کو خارج کر دیا، جس میں انھوں نے ریاستوں کے چیف سکریٹریز کو ورچوئل طور سے پیش ہونے کی اجازت مانگی تھی۔ عدالت نے اس پر سخت رخ اختیار کرتے ہوئے کہا کہ چیف سکریٹریز 3 نومبر کو عدالت میں بذات خود حاضر ہوں۔
سالیسٹر جنرل کی اس عرضی کو جسٹس وکرم ناتھ اور جسٹس سندیپ مہتا کی بنچ نے خارج کیا۔ بنچ نے کہا کہ عدالتی احکامات کی کوئی قدر نہیں کی جا رہی ہے، اس لیے ریاستوں کے چیف سکریٹریز کو بلاواسطہ طور سے عدالت میں حاضر ہونا ہوگا۔ یہ معاملہ آوارہ کتوں کے حملوں اور ریبیز کے بڑھتے معاملوں کی رپورٹ کے بعد از خود نوٹس کی شکل میں شروع کیا گیا تھا۔
عدالت کا یہ حکم کئی ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام خطوں کے ذریعہ بار بار احکامات پر عمل نہ کرنے کے درمیان آیا ہے۔ عدالت کے 22 اگست سے متعلق حکم کے باوجود ریاستی مویشی جنم کنٹرول (اے بی سی) اصولوں کے تحت اٹھائے گئے اقدام کی جانکاری والا حلف نامہ پیش کرنے میں ناکام رہے۔ جسٹس وکرم ناتھ نے کہا کہ ’’حکومتیں اصول تو بناتی ہیں، لیکن عمل نہیں کرتیں اور عدالتی احکامات پر نیند کے مزے لے رہی ہیں۔‘‘
اس سے قبل بہار حکومت نے 6 اور 11 نومبر کو ہونے والے اسمبلی انتخاب کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے چیف سکریٹری کو عدالت میں پیش ہونے سے چھوٹ دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ عدالت نے یہ کہتے ہوئے عرضی خارج کر دیت ھی کہ ’’دیکھ بھال کے لیے الیکشن کمیشن ہے۔ فکر مت کرو۔ چیف سکریٹری کو آنے دو۔‘‘ عدالت نے 27 اکتوبر کو آوارہ کتوں کے معاملے پر ریاستی حکومتوں کی تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسے واقعات بیرون ممالک میں ہندوستان کی شبیہ خراب کر رہے ہیں۔ عدالت نے مغربی بنگال اور تلنگانہ کو چھوڑ کر سبھی ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام خطوں کو ہدایت دی تھی کہ ریاستوں کے چیف سکریٹری 3 نومبر کو عدالت میں حاضر ہوں اور حلف نامہ داخل کرنے میں تاخیر کی وجہ بتائیں۔
 
 
















 
  
 
