احمدآباد: گجرات ہائی کورٹ میں دیے گئے ایک حلف نامہ میں چار پولیس اہلکاروں نے بدھ کو دلیل دی کہ ‘لوگوں کو پیچھے سے لاٹھیوں سے مارنا تشدد نہیں سمجھا جانا چاہیے۔ ان پولیس اہلکاروں پر گزشتہ سال کھیڑا ضلع میں مسلمان مردوں پر وحشیانہ حملہ کرنے کا الزام تھا۔ جس کے بعد مار پیٹ کا مقدمہ درج کیا گیا۔ تاہم اب انہوں نے بنچ سے کہا کہ اگر وہ قصوروار پائے جاتے ہیں تو انہیں سزا نہیں دی جانی چاہئے بلکہ متاثرین کو معاوضہ ادا کرنے کو کہا جانا چاہئے۔
لائیو لا کی رپورٹ کے مطابق جسٹس اے ایس سپاہیہ اور جسٹس گیتا گوپی کی بنچ کے سامنے پولیس اہلکاروں کے وکیل پرکاش جانی نے دلیل دی کہ ان سبھی نے 10-15 سال خدمات انجام دی ہیں اور اب اگر وہ مجرم پائے جاتے ہیں۔ تو اس کے کام کا ریکارڈ بری طرح متاثر ہوگا۔ وکیل پرکاش جانی کے دلائل پر غور کرتے ہوئے عدالت نے کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کر دی۔ بنچ نے اس معاملے پر شکایت کنندہ مسلم مردوں سے جواب طلب کیا ہے۔
اس معاملے کے ملزمان میں گجرات پولیس کے افسران اے وی پرمار (انسپکٹر)، ڈی بی کماوت (سب انسپکٹر)، کے ایل ڈابھی (ہیڈ کانسٹیبل) اور راجو دابھی (کانسٹیبل) شامل ہیں۔ سب نے عدالت پر زور دیا کہ وہ متاثرین کو معاوضہ دینے کے لیے تیار ہیں۔ عدالت کو اس پر غور کرنا چاہیے۔تادیں کہ 4 اکتوبر 2022 کو نوراتری تہوار سے ایک دن پہلے کھیڑا ضلع کے اندھیلا گاؤں میں گربا پروگرام میں پتھراؤ کرنے پر مسلم مردوں کو حراست میں لیا گیا تھا۔ اس واقعے میں کم از کم 40 افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔ اس کے بعد پولیس اہلکاروں نے سرعام تین مسلمان مردوں کو ایک ستون سے باندھ کر لاٹھیوں سے مارا۔ لائیو لا کی رپورٹ کے مطابق، پچھلی سماعت میں عدالت نے ریاستی حکومت سے پوچھا تھا کہ کیا کوئی قانون پولیس والوں کو کسی بھی ملزم کو ستون سے باندھ کر مارنے کی اجازت دیتا ہے۔ عدالت نے مزید سماعت پیر تک ملتوی کر دی۔