نئی دہلی: لوک جن شکتی پارٹی (رام ولاس) کے سربراہ اور رکن پارلیمان چراغ پاسوان نے اس معاملے پر اپوزیشن پر سخت حملہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اپوزیشن پرانے وقف قانون کا دفاع کر رہی ہے اور عدالتوں کے چکر کاٹ رہی ہے لیکن یہ بھی سوچنا چاہیے کہ کتنے ایسے مسلمان تھے جو پچھلے قانون کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا بھی نہیں سکے۔
دہلی میں منعقد انڈین ایکسپریس کے پروگرام ’ایکسپریس اڈّہ‘ میں گفتگو کرتے ہوئے چراغ پاسوان نے کہا کہ اپوزیشن ہمیشہ سے ایسے قوانین کی مخالفت کرتی آئی ہے جو ملک کی بہتری کے لیے بنائے گئے۔ انہوں نے سی اے اے اور دفعہ 370 کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ان قوانین پر بھی اپوزیشن نے یہی پروپیگنڈہ کیا تھا لیکن بعد میں ان کی باتیں غلط ثابت ہوئیں۔
چراغ پاسوان نے کہا، ’’شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) ان مظلوم اقلیتوں کے لیے تھا جو پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش میں مذہبی بنیاد پر ظلم جھیل رہے تھے لیکن اپوزیشن نے اسے مسلمانوں کے خلاف بتانے کی کوشش کی، حالانکہ ایسا کچھ نہیں تھا۔انہوں نے جموں و کشمیر سے دفعہ 370 ہٹائے جانے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن نے یہاں بھی قیامت کا نقشہ کھینچ دیا تھا لیکن حالیہ انتخابات میں نیشنل کانفرنس کی کامیابی اور عمر عبداللہ کا دوبارہ وزیراعلیٰ بننا اس بات کا ثبوت ہے کہ سب کچھ معمول پر آ چکا ہے۔
چِراغ پاسوان کے مطابق، "اب یہی پروپیگنڈہ وقف ترمیمی قانون کو لے کر کیا جا رہا ہے۔ وقت کے ساتھ لوگوں کو خود سمجھ آ جائے گا کہ یہ قانون ان کی بھلائی کے لیے ہے۔”واضح رہے کہ مرکزی حکومت نے 8 اپریل کو وَقف ترمیمی قانون کو نافذ کرنے کے لیے نوٹیفکیشن جاری کیا تھا۔ اس قانون کا مقصد 1995 کے وَقف قانون میں ترمیم کر کے وَقف جائیدادوں کے انتظام اور کنٹرول سے جڑے مسائل کا حل نکالنا ہے۔
وہیں، اس قانون کی مخالفت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ وَقف ایک مذہبی ادارہ ہے، اس کے انتظام میں حکومت کی مداخلت آئینی اصولوں کے خلاف ہے۔ درخواست گزاروں نے کہا ہے کہ نیا قانون آئین کے آرٹیکل 14، 15، 25، 26 اور 29 کے تحت حاصل بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے، اور آرٹیکل 300A یعنی حق ملکیت کے بھی منافی ہے۔سپریم کورٹ میں 16 اپریل کو ان تمام درخواستوں پر باضابطہ سماعت ہوگی، جس کے بعد عدالت کے رخ کا اندازہ لگایا جا سکے گا۔
وقف ترمیمی قانون 2025 کے خلاف دائر درخواستوں پر سپریم کورٹ 16 اپریل کو سماعت کرے گا۔ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے صدر اسدالدین اویسی، جمعیۃ علماء ہند، کانگریس کے رکن پارلیمان محمد جاوید سمیت 15 افراد نے اب تک اس قانون کے خلاف عدالت عظمیٰ میں عرضیاں دائر کی ہیں۔