اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے العزیزیہ ریفرنس میں سزا کے خلاف اپیل منظور کرتے ہوئے نواز شریف کو بری کر دیا۔چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے سماعت کی۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف اپنی لیگل ٹیم کے ہمراہ پیش ہوئے۔نواز شریف کے وکلا اعظم نذیر تارڑ، امجد پرویز جبکہ قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے نعیم طارق سنگیڑا، محمد رافع مقصود اور اظہر مقبول شاہ عدالت میں پیش ہوئے۔امجد پرویز ایڈووکیٹ نے بتایا کہ استغاثہ کے اسٹار گواہ واجد ضیاء نے اعتراف کیا تھا کہ زیر کفالت سے متعلق کوئی شواہد موجود نہیں ہیں۔نواز شریف کے وکیل امجد پرویز نے بینامی مقدمات سے متعلق 13 عدالتی فیصلے عدالت میں پیش کر دیے۔ امجد پرویز نے مختلف عدالتی فیصلوں کے حوالے سے بتایا کہ عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ مقدمات میں ملزم کو معصوم سمجھا جاتا ہے۔مزید بتایا کہ فیصلے میں کہا گیا کہ مقدمات میں استغاثہ کو الزام ثابت کرنا ہوتے ہیں۔ فیصلوں کے مطابق بار ثبوت استغاثہ پر ہوتا ہے، نہ کہ ملزم پر۔ ملزم کو اپنی معصومیت ثابت کرنے کے لیے مجبور نہیں کیا جاسکتا۔امجد پرویز نے کہا کہ استغاثہ اس کیس میں ایک بھی ثبوت نہ لاسکا، لہذا بار ثبوت ملزم پر منتقل نہیں ہوسکتا۔ یہی میرا سارا کیس ہے۔ یہ بریت کے لیے ایک بہترین کیس ہے۔نواز شریف کے وکیل امجد پرویز نے دلائل مکمل کر لیے جس کے بعد نیب وکیل نے اپنے دلائل پیش کئے۔نیب پراسکیوٹر نے نواز شریف پر عائد کی گئی فرد جرم کے کچھ حصے پڑھے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ العزیزیہ اور ہل میٹل، دو پرائم الزامات ہیں۔ یہ بتائیے کہ العزیزیہ کب لگی، کیسے لگی؟ آپ پراسیکیوٹر تھے، بتائیں آپ کے پاس کیا شواہد تھے؟نیب پراسکیوٹر نے کہا کہ فرد جرم عائد کرتے ہوئے عدالت نے ملزمان معلوم ذرائع لکھے، نواز شریف پرکرپشن اور کرپٹ پریکٹس کے الزام کے تحت فرد جرم عائد کی گئیاعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اگر یہ معاملہ واپس ٹرائل کورٹ ہی جانا ہے تو بعد میں بھی ہمیں یہیں آنا پڑے گا، چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ آپ کو میرٹ پر دلائل دینے میں کتنا وقت چاہیے؟ دلائل میں شواہد بتائیں گے پھر ان کا تعلق جوڑنے کی کوشش کریں گے26 اکتوبر کو سلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کی درخواست پر ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس میں سزا کے خلاف اپیلیں بحال کردی تھیں۔نواز شریف گزشتہ ماہ 21 اکتوبر کو وطن واپسی کے بعد 23 اکتوبر کو سزا کے خلاف اپیلوں کی بحالی کیلئے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر دی تھی۔29 نومبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم کی ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا کے خلاف اپیلیں منظور کر لی تھیں اور احتساب عدالت کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے نواز شریف کو بری کردیا تھا۔یاد رہے کہ اسلام آباد کی احتساب عدالت نے دسمبر 2018 میں العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں 7 سال قید کی سزا سنائی تھی جبکہ فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں انھیں باعزت بری کردیا تھا تاہم 10 سال کے لیے کسی بھی عوامی عہدے کے لیے نااہل، تمام جائیدادیں ضبط کرنے اور جرمانہ عائد کرنے کا فیصلہ سنایا تھا۔احتساب عدالت کے فیصلے کے خلاف نواز شریف نے 2018 میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی اور بعد ازاں عدالت عالیہ نے العزیزیہ ریفرنس مشروط طور ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔اسلام آباد کی احتساب عدالت نے جولائی 2018 میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو ایون فیلڈ ریفرنس میں نوازشریف کو 80 لاکھ پاؤنڈ اور مریم نواز کو 20 لاکھ پاؤنڈ جرمانہ کیا تھا اور ایون فیلڈ اپارٹمنٹس ضبط کرنے کا بھی حکم دیا تھا تاہم مسلم لیگ (ن) کے قائد نے مذکورہ فیصلے کے خلاف بھی اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔اسلام آباد ہائی کورٹ پہلے ہی ایون فیلڈ ریفنرس میں شریک ملزم مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو بری کرچکی ہے۔نواز شریف کو 2018 میں العزیزیہ ملز ریفرنس میں انہیں لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں 7 برس کے لیے قید کردیا گیا تھا تاہم کچھ ہی عرصے بعد انہیں طبی بنیادوں پر لندن جانے کی اجازت دے دی گئی تھی۔