وقف ترمیمی بل کو مسترد کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی )نے جمہوری قدروں اور مسلمانوں کے دستوری حقوق کو پامال کرتے ہوئے 14 ترامیم کے ساتھ وقف بل اسپیکر کو پیش کیا تھا، جسے مرکزی حکومت نے آج پارلیمنٹ میں منظوری کے لیے پیش کر دیا ہے۔ ارشد مدنی جمعیۃ علماء ہند کی مجلس عاملہ کے اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔
مولانا مدنی نے اس ترمیمی بل پر اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان ترامیم کے ذریعے حکومت وقف جائدادوں کی حیثیت اور نوعیت کو بدلنا چاہتی ہے تاکہ ان پر قبضہ کر کے وقف کی حیثیت ختم کرنا آسان ہو جائے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ پہلے دفعہ 3 کے تحت وقف کے صحیح ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ وقف بورڈ کرتا تھا، لیکن اب یہ اختیار کلکٹر کو دے دیا گیا ہے، اور مزید ترمیم میں کلکٹر کے بجائے کسی اعلیٰ حکومتی افسر کو انکوائری کا حق دے دیا گیا ہے۔ جب تک وہ رپورٹ نہ دے، اس جائداد کو وقف نہیں مانا جائے گا، خواہ اس میں برسوں لگ جائیں۔
مولانا مدنی نے کہا کہ وقف بائی یوزر ضابطہ کو مسلمانوں کے شدید احتجاج کے بعد بحال تو کیا گیا لیکن اس میں چالاکی سے یہ شامل کر دیا گیا کہ اگر کسی وقف جائداد پر تنازعہ یا مقدمہ ہو، تو حکومت اس پر دعویٰ کر سکتی ہے۔ اس ترمیم کے ذریعے دہلی کی 123 جائدادوں سمیت کئی وقف املاک وقف بائی یوزر کے زمرے سے باہر ہو جائیں گی اور مسلمانوں کا دعویٰ قابل قبول نہیں ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت نے مسلم تنظیموں اور اپوزیشن کی تجاویز کو نظرانداز کر کے اس بل کی منظوری کی سفارش کی، جو غیر جمہوری اور مسلمانوں کے حقوق کی پامالی ہے۔ مولانا مدنی نے حکومت میں شامل خود کو سیکولر کہنے والی جماعتوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ انہوں نے مفاد پرستی اور بزدلی کا ثبوت دیا اور مسلمانوں کے مفادات کے لیے حکومت پر دباؤ نہیں ڈالا۔ انہوں نے ان جماعتوں کو خبردار کیا کہ وہ اس ایکٹ کو پارلیمنٹ میں منظوری سے روکنے کے لیے اقدامات کریں، ورنہ اس کے نتائج بھگتنا پڑیں گے۔
مولانا مدنی نے اعلان کیا کہ اگر یہ بل پاس ہو جاتا ہے تو جمعیۃ علماء ہند اس کے خلاف سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹائے گی اور وقف املاک کے تحفظ کے لیے جمہوری و دستوری ذرائع اختیار کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ وقف جائدادیں واقف کی منشا کے مطابق استعمال ہونی چاہئیں، کیونکہ یہ وقف علی اللہ ہوتی ہیں، اور حکومت اس میں مداخلت نہیں کر سکتی۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں دخل اندازی کر رہی ہے اور ان کی اربوں کھربوں کی جائدادوں پر قبضہ کرنا چاہتی ہے، جیسا کہ اس نے پہلے طلاق، نفقہ اور یو سی سی جیسے معاملات میں کیا۔ انہوں نے اپوزیشن ارکان کا شکریہ ادا کیا، جنہوں نے پارلیمنٹ میں اس بل کی شدت سے مخالفت کی۔اجلاس کے شرکاء نے ملک میں بڑھتی فرقہ واریت، اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک، یکساں سول کوڈ کے نفاذ، عبادت گاہ ایکٹ کے باوجود مساجد کے خلاف جاری مہم اور فلسطین میں اسرائیلی جارحیت جیسے سلگتے مسائل پر بھی تبادلہ خیال کیا اور اہم فیصلے کیے۔