نئی دہلی: دودھ اور متعلق مصنوعات کی قیمتوں میں لگاتار اضافہ ہو رہا اور عوام کو مشکلات سے دو چار ہونا پڑ رہا ہے۔ اگرچہ اشیائے خرد و نوش کے داموں میں کچھ کمی واقع ہوئی ہے لیکن دودھ کے معاملہ میں کوئی راحت نہیں مل رہی۔ مئی مہینے کے لیے خوردہ افراط زر (ریٹیل انفلیشن) کے اعداد و شمار کے مطابق اپریل کے مقابلہ مئی میں دودھ اور متعلق مصنوعات کی مہنگائی میں اضافہ نظر آ رہا ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق مئی کے مہینے میں دودھ اور اس سے متعلقہ مصنوعات کی شرح افراط زر 8.91 فیصد تک پہنچ گئی ہے جو اپریل کے مہینے میں 8.85 فیصد تھی۔ گزشتہ سال مئی 2022 میں دودھ اور اس سے متعلقہ مصنوعات کی افراط زر کی شرح 5.64 فیصد تھی۔ وزارت شماریات کے ان اعدادوشمار سے واضح ہے کہ اپریل کے مقابلے مئی کے مہینے میں دودھ اور اس کی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔
آر بی آئی کی مانیٹری پالیسی کمیٹی کی میٹنگ 6 سے 8 جون 2023 تک تین دنوں کے لیے منعقد ہوئی۔ 8 جون کو کمیٹی کی طرف سے جاری کردہ قرارداد میں آر بی آئی کمیٹی نے دودھ کی قیمتوں پر بھی تشویش ظاہر کی تھی۔ آر بی آئی کے ایم پی سی نے کہا کہ سپلائی میں کمی اور چارے کی قیمتوں میں تیزی سے اضافے کی وجہ سے دودھ کی قیمتیں دباؤ میں رہیں گی۔ یعنی یہ واضح ہے کہ اگرچہ خوردہ مہنگائی کی شرح نیچے آ رہی ہے، لیکن خود آر بی آئی بھی دودھ کی قیمتوں میں اضافے کا امکان ظاہر کر رہا ہے۔
اگر آپ دودھ کی مہنگائی پر نظر ڈالیں تو امول فریش کا دو لیٹر پیک 30 جون 2021 کو 88 روپے فی لیٹر میں دستیاب تھا، اب یہ 108 روپے میں دستیاب ہے، یعنی اس میں 23 روپے کا اضافہ ہو چکا ہے۔ امول کا بھینس کا دودھ، جو 30 جون 2021 کو 59 روپے فی لیٹر میں دستیاب تھا، 19 فیصد مہنگا ہو کر 70 روپے فی لیٹر ہو گیا ہے۔ وہیں، امول کا گائے کا دودھ پہلے ڈیڑھ سال تک 47 روپے فی لیٹر میں دستیاب تھا، جو اب 56 روپے فی لیٹر میں دستیاب ہے یعنی یہ تقریباً 20 فیصد مہنگا ہو چکا ہے۔ پچھلے ڈیڑھ سال میں مدر ڈیری اور امول نے دودھ کی قیمت میں پانچ مرتبہ اضافہ کیا ہے۔
خوردہ مہنگائی کے اعداد و شمار بتا رہے ہیں کہ دودھ اور اس سے متعلقہ مصنوعات کی مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ لہٰذا دودھ مہنگا ہونے کی وجہ سے دہی، لسی، گھی، پنیر، کھویا، چھاچھ کی قیمتوں میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ مدر ڈیری نے چھاچھ کے پیکٹ کا سائز کم کر دیا ہے۔ دودھ مہنگا ہونے سے مٹھائیاں اور آئس کریم بھی مہنگی ہو گئی ہیں۔ بسکٹ اور چاکلیٹ بنانے والی ایف ایم سی جی کمپنیوں نے بھی اپنی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا ہے۔