سہارَنپور:اترپردیش کے ضلع سہارَنپور میں ایک زیر تعمیر مسجد کو انتظامیہ کی جانب سے منہدم کیے جانے کے بعد غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔ نیوز پورٹل ’آج تک‘ پر شائع خبر کے مطابق، انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ یہ تعمیر غیر قانونی تھی اور متعدد بار نوٹس دیے جانے کے باوجود تعمیراتی کام جاری رکھا گیا، جس کے بعد اسے گرایا گیا۔ واقعہ پر ردعمل دیتے ہوئے کانگریس کے رکن پارلیمان عمران مسعود نے اس کارروائی کو غیر قانونی، یکطرفہ اور فرقہ وارانہ ذہنیت کا مظاہرہ قرار دیا ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ جب زمین متعلقہ افراد کی اپنی ہے تو مسجد کی تعمیر کو غیر قانونی کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟
ایجنسی کے مطابق، تحصیلدار سبودھ کمار نے کہا، ’’یہ ایک غیر قانونی تعمیر تھی، جس کے خلاف کارروائی کی گئی۔ بغیر اجازت اور نقشہ پاس کرائے بغیر تعمیر کا عمل جاری تھا۔ نوٹس بھیجا گیا تھا کہ پہلے منظوری حاصل کی جائے لیکن کوئی کارروائی نہیں کی گئی، اس لیے تعمیر منہدم کر دی گئی۔ جو بھی تعمیر غیر قانونی ہوگی، اس پر اسی طرح کارروائی کی جائے گی۔‘‘دوسری طرف عمران مسعود نے تحصیلدار کے دعوے کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ مسجد ان لوگوں کی اپنی زمین پر بن رہی تھی۔ انہوں نے پہلے ہی اطلاع دے رکھی تھی۔ گاؤں میں نقشے کی منظوری کا تصور کہاں ہوتا ہے؟
یہ واقعہ ایسے وقت میں پیش آیا ہے جب اتر پردیش میں اقلیتوں کے ساتھ انتظامی کارروائیوں پر پہلے ہی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں اور سیاسی حلقے اس طرح کی کارروائیوں کو امتیازی قرار دیتے آئے ہیں۔ عمران مسعود کا بیان ایک بار پھر اس بات کو اجاگر کرتا ہے کہ کس طرح بعض مواقع پر ضابطوں کی آڑ میں مذہبی شناخت کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ وہ اس معاملے کو عدالت میں لے جانے پر غور کر رہے ہیں تاکہ انصاف مل سکے۔